ابھی میں سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہوں
مگر اندر ہی اندر مجھ میں بے نام اذیت سراہیت کرتی جارہی ہے... وہ اذیت جس نے دیمک کے جیسے میری خوشیوں کو نگل لیا ہے...
موت سے بھی بھیانک دردناک اور روح کو چبھن کے تازیانے مارتی ہوئی قسمت سے بے خوف اذیت...
جو کہیں اندر کے جیسے میرے باہر کے وجود کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اس ڈر سے میں نے اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رکھا ہے...
اس طرح کرنے سے آزادی سے جینے کی خواہش کرتی میری سانسیں تو رک جاتی ہیں مگر میرا درد سینے سے نکل کر میرے چہرے پر اپنے ہونے کا نشان نہیں بنا پاتا
اور میں سب کے سامنے بآسانی خوشی سے ہنس لیتی ہوں...
کوشش کرتی ہوں میرا دکھ میرے چہرے پر دکھائی نہ دے... لیکن یہ جو وقت ہے یہ لحاظ نہیں کرتا...
کبھی بھی کہیں بھی مجھے واپس اس احساس کی حساسیت کا بیمار بنا دیتا ہے جس سے بچنے کے لیے میں سینکڑوں معالج بدل چکی ہوں...
No comments:
Post a Comment