میں جب بھی اپنے ربّ سے کہتی ہوں
یا اللہ ! میری چاہت ،، میری حسرت ،، میری ضرورت ،،
وہ کہتے ہیں......اچھا ،، ٹھیک ہے ،، یہ لو ،،
اور جب بھی میں کہتی ہوں
اے میرے مالک ! میری ذات ،،
تو وہ کہتے ہیں....... نہیں ،، نہیں ،،
میں ہمیشہ اس الجھن میں رہی کہ زندگی کے سیدھے سادھے دھاگے میں ایک گرہ کیوں بندھی ہوئی ہے
میری ایک دعا ہر دعا پہ حاوی کیوں ہے بس ایک کمی ہر چیز اور ہر خوشی کو پھیکا کیوں کرتی ہے
اور جیسے جیسے سمجھ آتی گئی اس " کیوں " کا جواب ملتا گیا
جب ہم اپنے من پسند پرندے کو اپنے پاس قید کرکے رکھتے ہیں تو یقیناً اس سے محبّت اور لگاؤ تو واجب ہو جاتا ہے اگر پرندہ کسی طور کمزور یا بیمار ہے تو ہماری توجہ اس پہ سو گناہ زیادہ ہوتی ہے
ہم اس کو چھوڑنے یا آزاد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہم جانتے ہیں اگر یہ دنیا کے ہاتھ آگیا وہ اسے ستائے گی نا قدری کرے گی یا روندے گی نہیں ،، نہیں ،، ہمارا کیسے حوصلہ پڑے کہ ہم اسے اس کے حال پہ چھوڑیں......ہرگز نہیں !
ہماری صورتحال ہو بہو پرندے جیسی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو بہت سارے اختیارات دے رکھے ہیں
بہر الحال یہ تو سچ ہماری سوچ سے آگے ایک جہاں اور بھی.....
ہم ایک پلک جھپکنے جیسی نعمت کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی تمام تر حکمتیں ہماری سمجھ میں آجائیں
شعور آتے ہی گزشتہ عمر بیکار لگنے لگتی ہے اور سکون آتے ہی ساری شکایتیں فضول ہو جاتی ہیں
سب سے بڑا سکون یہ ہے کہ میرا مالک میری کوشش دیکھ رہا ہے
میری طلب میں میری ذات کی جگہ " تیری ذات " نے لے لی ہے اور یہ سکون کی انتہاء ہے___!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ربّ کی طلب میں انتہاء کی چاہت ہے.....
اس چاہت میں ہی خود کو مٹا لینا ہے ،،
میری محبّت کا محور کوئی انساں نہیں ہے.....
یہ معاملہ کھونے پانے سے آگے تک کا ہے ،،
_______________
No comments:
Post a Comment