وبائیں ہار جاتی ہیں
جب رب کائنات نے انسان کو بنانے کا ارادہ فرمایا۔تو اس وقت سے ہی انسان سے حسد کا آغاز ہو گیا۔رب کائنات کی سب سے مقدس مخلوق جو گناہوں اور خطاؤں سے پاک تھی۔اس نے بھی انسانوں کی تخلیق پر کہا کہ یہ انسان تو زمین پر فساد برپا کرے گا۔اس کو تخلیق کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم اپنے مقدس پروردگار کی تمحید و تقدیس کے لیے کافی ہیں۔مگر چونکہ خالق کائنات انسان کی تخلیق کا ارادہ فرما چکے تھے۔تو رب کائنات نے اپنے ارادے کو وجود بخشا۔اور آدم اور بعد ازاں حوا کی تخلیق عمل میں آئی۔خالق کائنات نے ان کو کچھ عرصہ جنت میں ٹھکانہ بخشا۔اور ان کو جنت کی ابدی نعمتیں عطا کیں۔مگر جب رب کائنات کا امر آیا تو ان کو جنت سے دنیا میں اتارا گیا جوکہ ایک طہ شدہ امر تھا۔اور کہا گیا کہ آدم تم اور تمہاری نسل ایک مقرر وقت تک دنیا میں ہماری آزمائشوں کا سامنا کرے گی۔اور جب ان کی آزمائش ختم ہوگی تو میں اس دنیا کو مٹا ڈالوں گا اور تمہیں اور اس آزمائش میں ثابت قدمی دکھانے والے،نیک اعمال سے مجھ کو منانے والے،میرے فرستادہ رسولوں کی اطاعت کرنے والے انسانوں کو دوبارہ اس جنت میں ٹھکانہ بخشوں گا اور ان پر اپنی نعمتیں تمام کروں گا۔
غرض یہ اعلان ہمارے لیے واضح پیغام تھا کہ ہمارے خالق نے ہمیں جنت سے دار امتحان کی جانب روانہ کردیا ہے۔ اب ہر دن ایک آزمائش اور ہر رات ایک اذیت ہے۔اور ہمیں اس میں ثابت قدمی دکھانی ہے۔اب زلزلے ائیں،سیلاب امڈیں،آندھیاں چلیں یا پھر وبائیں اتریں۔ہمیں ہر حال میں ثابت قدمی اور جواں ہمتی دکھانی پڑے گی۔اس کے لیے تیاری شرط ہے اور تربیت زینہ ہے۔یہ کرونا نامی وبا کوئی پہلی مرتبہ نہیں پھوٹی۔یہ وبائیں اس سے قبل بھی آئیں بستیوں کی بستیاں اجڑیں اور پھر انسانوں کے عزم اور حوصلے ان کو بسانے میں کامیاب ہوئے۔مگر ان وباؤں کا مقابلہ صرف اس قوم نے جواں مردی سے کیا جس کی تربیت بہترین اور جذبہ انسانیت کے سنہری اصولوں کے مطابق ہوئی تھی۔ہم نے دیکھا چین کے شہر وہان سے لے کر یورپ اور امریکہ تک یہ وبا پہنچی مگر ان ریاستوں نے کمال حکمت عملی کا مظاہرہ گیا۔وبا قابو میں آئی یا نہیں البتہ ان کی انسانی ہمدردی اور جواں ہمتی نے سب کو حیران کر دیا۔۔خصوصا اٹلی کی غیور عوام نے نہ بھیک مانگی نہ صدائیں لگائیں۔نہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے بلکہ اپنے شب و روز کی محنت کو بڑھا لیا۔جن اشیائے ضرویہ کی کمی تھی ان کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کیے۔اور اپنے تمام تر وسائل انسانوں کی زندگیاں بچانے پر لگا دیے۔اور ثابت کیا کہ روئے زمین پر انسان کی جان سے مقدس کچھ نہیں۔
مگر ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف تھی۔ہمارے مسیحا بیماروں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کو بے یارو مددگار چھوڑ گئے۔انسانوں سے ایسے دور بھاگے جیسے کسی نجس اور پلید چیز سے بھاگا جاتا ہے۔انسان تڑپتےے رہے اور کچھ مسیحا ان کے تڑپ کو نظر انداز کر کے اپنی ذات کے تحفظ کو مقدم جانتے رہے۔ہمارے حکومت اس وقت بھی کشکول لیے بھکاری بنی نظر آئی۔غرض وہ سب علامتیں جو سابقہ قوموں کو مٹانے میں کارگر تھیں ان کا عملی نمونہ ہم نے پیش کیا۔۔نہ تربیت نظر آئی نہ ہمت نہ جواں مردی نہ انسان دوستی اور نہ خالق کائنات کی مقدس مخلوق انسان سے محبت کا عملی نمونہ نظر آیا۔جب قوموں کے ارادے مضبوط ہوں تو وبائیں ہار جاتی ہیں مگر جب کسی قوم کے مسیحا عین خدمت کے وقت دھوکہ دے جائیں تو وہ قوم بے یارو مددگار رہ جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے چند درد دل رکھنے والے موجود ہوتے ہیں جو خودغرضوں کے برے اعمال کے سامنے اپنے اچھے اعمال کو ڈھال کی صورت پیش کرتے ہیں۔جس پر خالق کو مخلوق پر رحم آتا ہے اور وہ دوبارہ اجڑی بستیاں بسا دیتا ہے
No comments:
Post a Comment