اداسی کوئی عادت نہیں ہوتی یہ انسان کی ذات کا ایک چھپا ہوا پہلو ہوتا ہے .. لوگ کہتے ہیں نکال دینی چاہیے یہ عادت پر مجھے لگتا ہے انسان خود اپنے اصل کو کیسے ختم کرسکتا ہے ؟ یہ کہنا آسان ہوتا ہے تم اداس رہتے ہو تمہارا اور کام ہی کیا ہے پر سامنے والے پر آگہی کے در ایسے کھلیں کہ وہ چہرے پڑھنا سیکھ جاۓ وہ حساسیت کہ اس درجے پر ہو جہاں وہ مسکراہٹوں میں چھپے درد سمجھ لے, کسی اجنبی کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں پر اسکی اپنی آنکھیں بھیگنے لگیں __اور کسی کا دکھ ایسے محسوس ہو جیسے وہ اپنا دکھ ہے .. تو پھر ایسے لوگوں کو اپنی مسکراہٹیں کھوکھلی لگنے لگتی ہیں ..اور سکون پھر اپنی ذات اور اس سے جڑے چند رشتوں تک محدود دائرے میں ہی ملتا ہے
اداسی روح میں رچ بس جاۓ تو بڑا مشکل سا لگتا ہے
منافق بن کے پھر رہنا اور قہقہے مار کر ہنسنا.
No comments:
Post a Comment