سنا ہے لوگ کہتے ہیں
تعلق ٹوٹ جائے تو
وہ یکسر ٹوٹ جاتا ہے
تو پھر ہم دیکھتے کیوں ہیں
کسی کی سبز لائٹ کو
کسی واٹس ایپ سٹیٹس کو
کسی کی ٹائم لائن پر
کیوں ہم سرچ کرتے ہیں
کہ شاید ایک پوسٹ پر
کسی نے اُس سے پوچھا ہو
تمھارا تھا کوئی پہلے
تو شاید بے خودی میں
اُس نے میرا نام لکھا ہو۔۔
کوئی اک شعر ایسا ہو
پروفائل کے بائیو پر
جدائی پہ جو لکھا ہو .
اسے کاپی کرو گے تم
بہت مطلب نکالو گے
اُسی کی ٹائم لائن پر
بہت ہی بے بسی سے پھر
انا کو توڑ آتے ہو
وہاں اک لائک کی صورت
کسی کمنٹ کی صورت
تم خود کو چھوڑ آتے ہو
یا اُس کی نئی پوسٹ پر
کسی سے پاگلوں جیسے
یونہی پھر بحث کر لینا
کہ تمہارا نام مسلسل اسے
نوٹیفکیشن میں نظر آئے
تو تم اس کو یاد آؤ گے
شاید آ بھی جاؤ گے
تو کیا ریپلائی آئے گا .
کہ جب ترکِ تعلق ہے
تو کیوں پھر دوسروں سے
اس کی خیریت معلوم کرتے ہو
تو کیوں اس کی ہر اک ڈی پی کو
جا کے زوم کرتے ہو
پھر اس کی ،
ہر اک پکچر پہ
یوں ہالے کی صورت میں
کبھی انگلی گھماتے ہو
تو پھر کیوں اس کی تصویروں کو
اپنا دکھ سناتے ہیں
کبھی اس کی سٹوری پر
سٹیکر بھیجنا کوئی
کبھی اس کے سٹیٹس پر
" بہت ہی خوب " لکھ دینا
تو پھر کیوں رات کو اکثر
کسی گُڈ نائیٹ پوسٹ پر
اسی کو ٹیگ کرتے ہو
اور سونے سے ذرا پہلے
پرانی چَیٹ پڑھتے ہو
کیوں بے چین ہوتے ہو
تم ایکٹو ناؤ کے لفظوں پر
بڑے بے تاب ہوتے ہو
وہ اب تک آن لائن ہے
تو پھر کیوں لوگ کہتے ہیں
تعلق ٹوٹ جائے تو
وہ یکسر ٹوٹ جاتا ہے
مگر ایسا نہیں ہوتا
تعلق ٹوٹ بھی جائے
ذرا سا پھر بھی رہتا ہے
ذرا سا پھر بھی رہتا ہے
No comments:
Post a Comment