اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔
رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ،
کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ،
مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ہوگا
بولے گا نہ کچھ لیکن ،
فریاد کُناں ہوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راہی
--------- وہ سوختہ پروانہ
جب آئے یہاں اُس کو
مایوس نہ لوٹانا
ہو تیز ہوا کتنی ، لَو
اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا
-------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں
اِک پھول نے کھلنا ہے !!
!!اُس نے انہی گلیوں میں
، اِک شخص سے ملنا ہے
No comments:
Post a Comment