اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔
رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ،
کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ،
مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ہوگا
بولے گا نہ کچھ لیکن ، فریاد کُناں ہوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راہی --------- وہ سوختہ پروانہ
جب آئے یہاں اُس کو مایوس نہ لوٹانا
ہو تیز ہوا کتنی ، لَو اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا -------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں اِک پھول نے کھلنا ہے
اُس نے انہی گلیوں میں ، اِک شخص سے ملنا ہے
No comments:
Post a Comment