دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا
رات آنکھوں میں گزاروں تو سحر دیکھوں گا
اے غم زیست! کوئی موڑ بھی منزل کا نہیں
اور کب تک میں مسلسل یہ سفر دیکھوں گا
یہ جو ہر لمحہ دھڑکتی ہے مرے سینے میں
اس کسک کو بھی کبھی جسم بدر دیکھوں گا
مجھ کو تصویر کا بس ایک ہی رُخ بھاتا ہے
کس طرح سے ترا ویران نگر دیکھوں گا
اب تو اس خواب سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
کب سراپا کو ترے ایک نظر دیکھوں گا
یہ مرا شہر ہے' اس شہر میں میں رہتا ہوں
کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا
اُفقِ شرق سے پو پھوٹ رہی ہے احمد
اب میں بستی کا ہر اک فرد نڈر دیکھوں گا
No comments:
Post a Comment