اندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں
ہم دیوانے لوگ ہنساتے پھرتے ہیں
چہرہ چہرہ ہر دل کی دیوار سے ہم
اپنے نام کے حرف مٹاتے پھرتے ہیں
شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ برگِ سبز
فصلِ بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں
وہ جو دل کو دل کی رحل پہ رکھتے تھے
اب ہم ان کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں
پہلے دھوپ کے لمس کو ہم نے برف کیا
اب ہم برف پہ پاؤں جلاتے پھرتے ہیں
اب تو اپنے سائے سے آئینہ لوگ
اپنا عیب ثواب چھپاتے پھرتے ہیں
احمد قحطِ سماعت سے دیواروں کو
تازہ غزل کے شعر سناتے پھرتے ہیں
No comments:
Post a Comment