انگریزی کہاوت ہے
Beauty lies in beholder's eyes
یعنی خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی ایک وسیع لفظ ہے۔ ایسا لفظ جس کی ہمہ گیریت اس پوری کائنات کو محیط کرتی ہے۔ خوبصورتی کا لفظ سنتے ہی زمین و آسمان کے وسعتوں میں پھیلے بے کراں راز ظاہر ہوجاتے ہیں۔ وہ راز جو انسان کو رب اور اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی طرف طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کو بیان کرنے کیلیئے دجنون صفحات بھی کم ہیں۔
یہ دنیا، آسمان، ستارے، چاند اور چاندنی، چرند پرند، درخت کہسار، ندی نالے، کھیت کھلیان، پھل پھول، شب کے اندھیرے میں چمکتے جگنو، بسنت میں لہلہاتے زرد کھلیان۔ سرمئی شام، صبح کا کہر، ڈوبتا سورج، ابھرتی صبح۔ کس کس پر غور کریں۔ ہر شے اپنے اندر حسن و جمال اور روپ کی سندرتا سموئے ہوئے ہے۔ انگریزی ادب کے مشہور شاعر رابرٹ لوئیس اسٹیونسن نے اپنی ایک نظم Journey From a Railway Carriage میں ان تمام خوبصورتی کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھنے والا اپنے اردگرد کے حسن میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔
خوبصورتی صرف چہرے کا حسن نہیں، چہرے کا تل بھی یے۔ خوبصورتی صرف زلفوں کی سیاہی نہیں، اس میں موجود کاکول بھی ہے۔ خوبصورتی صرف ستوان ناک نہیں، اس میں لگی ہوئی ننھی سی لونگ بھی ہے۔ خوبصورتی ضعیفی بھی ہے۔ خوبصورتی بڑھاپے کا رعشہ بھی ہے۔ چہرے پر پڑی عمر بتاتی جھریاں بھی ہیں۔ بچوں کی کلکاریوں سے خوبصورتی اسی طرح چھلکتی ہے جیسے لہلہاتے سبزے کو پون گدگداتی ہے۔ جیسے بارش کی پہلی بوند۔ جیسے بارش کے بعد زمین سے اٹھنے والی مٹی کی مہک۔ ٹین کی چھت پر بارش سے بجنے والی جلترنگ۔ ٹمٹماتی چراغ کی لو کے گرد منڈلاتے پروانے۔ آتشدان میں بجھتے انگارے بھی۔ ماں کا پیار بھی اور باپ کی پھٹکار بھی۔ ساحل سمندر سے ٹکرانے والی لہروں میں بھی ایک حسن دلپزیر ہوتا ہے۔ جیسے لہریں اپنی طرف بلارہی ہوں۔ دوستی کرنا چاہ رہی ہوں۔ دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ محسوس کرنے والا دل چاہیئے۔ کوئل کی کوک کس کو بھلی نہیں لگتی ہے۔ جب کسی کی یاد دل کو کچوکے دیتی ہے تو ایسے میں منڈیر پر بیٹھے کاگا کی کائیں کائیں بھی دل کو بھاتی ہے۔
یہ جہاں ہر طرح کی خوبصورتی سے لبریز ہے۔ خوبصورتی تو شان رحمت ہے۔ پوری کائنات ایک خوبصورت نظام سے منسلک ہے۔ ایک کچے دھاگے کے رشتے میں بندھی لیکن اپنی چال میں مگن۔ رباعی کی بند کی طرح۔ بکھری ہوئی خوبصورتی کو سمیٹنے والی دید چاہیئے۔ خوبصورتی ذہن میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی گفتگو میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی سوچ میں دبی راکھ ہوتی ہے۔ خوبصورتی کو ڈھوندنا نہیں پڑتا۔ بس گردن جھکا کر اپنے دل میں جھانکنے کی تکلیف کرنا ہوتی ہے۔ خوبصورتی انسانوں سے محبت کا نام ہے۔ خوبصورتی نہ رنگ دیکھتی ہے، نہ زبان، نہ نسل، نہ قوم۔ نہ قد کاٹھ، نہ گوری چمڑی، نہ سکارف، نہ تنگ پاجامہ، نہ بھدی شکل، نہ گرجا، نہ مندر، نہ بھگوان، نہ رام رحیم۔ نہ اونچے مکانات اور نہ ہی کچی دیوار۔ یہ ٹاٹ کے پردے سے جھلکتی اندر بیٹھی الہڑ نار بھی ہے اور مٹی کے مکانات کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں بھی۔ 5 اسٹار ہوٹل کے کسی ریستوران میں کینڈل لائٹ ڈنر کرتا ہوا جوڑا بھی۔ خوبصورتی شاہوں کے محل میں موجود آرام دہ بستر میں ہی میں نہیں، یہ تو کٹیا میں پڑی جھلنگی چارپائی میں بھی ہوتی ہے۔
خوبصورتی کا معیار اگر ارشد خان "چائے والا" ہے تو ننگے پاوں پیٹھ پر تھیلا اٹھائے کچرے میں کھانا تلاش کرتی بھوکی بچی بھی۔ خوبصورتی ملالہ یوسفزئی بھی ہے اور معاشرہ کے سیاہ کرتوتوں کو بے نقاب کرنے والی شرمین عبید بھی۔ خوبصورتی تیزاب سے جھلسا چہرا بھی ہے اور بیساکھی کے سہارے بابا بھی۔ دور افریقہ کے کسی گاوں میں پیدا ہونے والے کالے چپٹی ناک والے بچے کی ماں سے پوچھیں۔ وہ اپنے جگر گوشہ کو سینے سے چمٹا کر پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بتائیگی کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے۔ یہ تو بس سوچ ہے۔ جو اچھی لگ جائے بس وہی خوبصورت ہے۔
ابو بن ادھم نے خدا سے پوچھا کہ کیا میرا نام تیرے چاہنے والوں کی فہرست میں اوپر لکھا ہے؟ جواب ملا نہیں۔ تمہارا نام ان لوگوں کی فہرست میں ہے جو میری مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑا سچ اور سچی محبت کی خوبصورتی یہی ہے کہ انسان اپنے جیسوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔ حقوق العباد کا نمبر حقوق اللہ سے پہلے آتا ہے۔ انسان اور مخلوقات سے پیار ہی سب سے عمدہ بات ہے۔ اور یہی پیار زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ یہی خوبصورتی ہے۔ بس
!
No comments:
Post a Comment