دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا
میں اپنا سر کسی دہلیز پر نہ رکھوںگا
میں تیرے قرب کے تسکین بخش پہلو میں
یہ ایک رات تو کیا ساری عمر جاگوں گا
میں اپنا دُکھ نہ سناؤں گا شہر والوں کو
ترے وقار کی اے دوست لاج رکھوں گا
وہ ایک شخص بھی اخلاص سے تہی نکلا
وفا کی سرد ترازو میں کس کو تولوں گا
شکستِ شیشۂ دل سے تو موت بہتر ہے
کوئی بتائے کہ کب تک یہ زہر چاٹوں گا
میں ایک شعلۂ احساس ہوں' اے شہر سکوت!
دماغ و دل بھی ہوئے منجمد تو بولوں گا
یہ تیرے ماتھے پہ تازہ شکن جو اُبھری ہے
اسی لکیر کے گرداب سے میں اُبھروں گا
ترے لبوں کے تبسم کے سرخ پتھر پر
میں اپنی روح کے لرزیدہ ہونٹ رکھ دوں گا
وہ میرے پاس بھی آ کر ستائے گا احمد
میں اُس سے دور بھی رہ کر دُعائیں ہی دوں گا
No comments:
Post a Comment