خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا
مہر برلب تھا مسافت میں بدن تعبیر کا
رنگ لاتا ہے بہرصورت لہو شبیر کا
سلسلہ در سلسلہ پھیلاؤ ہے زنجیر کا
ڈھونڈتا ہے کس گئی رُت کی رمیدہ خواہشیں
جبر کے سکرات میں افتادہ دل تقدیر کا
ایک ہالہ سا ملامت کا بنا رہتا ہے گرد
رُخ دمکتا ہی نہیں شادابیٔ توقیر کا
رات کی گہری سیاہی میں بھی مٹ جاتے ہیں نقش
دھوپ میں بھی رنگ اُڑ جاتا ہے ہر تصویر کا
جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا
مٹ نہیں سکتا لکھا انسان کی تقدیر کا
نااُمید آنکھوں کی تاریکی' دُعا کس سے کرے
کون ہے' کس نے جلانا اب دیا تاثیر کا
زندگی ایسی کئی قربان اس کی ذات پر
ہاتھ آ جائے کوئی نکتہ اگر تفسیر کا
کس کی جنبش کا تسلسل ہے زمیں سے تا اُفق
ہے معطر طاس' کس کی نگہتِ تحریر کا
قوتِ شوریدہ سے احمد کھلی چشمِ ہنر
کس تیقن سے ہوا مجرم قدم تاخیر کا
No comments:
Post a Comment