گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح
پرانے دوست بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح
کبھی تو آئے گا چشمِ یقیں کے حلقے میں
بساطِ دل پہ جو اُبھرا ہے چاندنی کی طرح
کوئی چراغ نہ ہو جس کے صحن میں روشن
مرا وجود ہے اس شب کی تیرگی کی طرح
وہ ابرِ خاص کہ جس سے بڑی توقع تھی
دیارِ روح سے گزرا ہے اجنبی کی طرح
مری نظر میں کوئی منزلِ خرد نہ جچی
سدا سفر میں رہا ذوقِ گمرہی کی طرح
کچھ اور دور ہو مجھ سے کہ اور نکھرے گا
ترا شعور مرے فن شاعری کی طرح
تھے جتنے جسم کے عقدے وہ حل ہوئے احمد
لہو کی خاک بھی چھانی تو دشت ہی کی طرح
No comments:
Post a Comment