بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے
بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے
لفظ اخلاص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے
لبِ اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے
آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے
چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے
میں تجھے کون سے لہجے میں ملامت بھیجوں
اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے
میرے ہر جرمِ وفا سے ہے شناسا عالم
تیرے اخلاص کا احساس ادق ہوتا ہے
جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو
مطلعِ دل پہ عجب رنگِ شفق ہوتا ہے
کون محروم رہا خُلقِ وفا سے احمد
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
No comments:
Post a Comment