مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی
کسی گہری
چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کہ
"شکست" یوں بھی قبول ہے
کبھی
حوصلے جو مثال تھے
وہ نہیں
رہے
مِرے
دشمنوں سے کہو کوئی
وہ جو شام
شہر وصال میں
کوئی
روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پہ جتنے سوال تھے
وہ نہیں
رہے
جو وفا کے
باب میں وحشتوں کے کمال تھے
وہ نہیں
رہے
مِرے
دُشمنوں سے کہو کوئی
وہ کبھی
جو عہدِ نشاط میں
مُجھے خود
پہ اِتنا غرور تھا کہیں کھو گیا
وہ جو
فاتحانہ خُمار میں
مِرے سارے
خواب نہال تھے
وہ نہیں
رہے
کہ بس اب
تو دل کی زباں پر
فقط ایک
قصّۂ حال ہے—– جو
نڈھال ہے
جو گئے
دنوں کا ملال ہے
مِرے
دُشمنوں سے کہو کوئی
No comments:
Post a Comment