تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا‘ کچھ سوچ
تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا‘ کچھ سوچ
ہے اس خرابے میں دل کس کا آئنہ‘ کچھ سوچ
دماغ پر ہے مسلّط سکوت سا کچھ‘ سوچ
ہے شام ہی سے یہ دل کیوں بجھا بجھا‘ کچھ سوچ
خفا نہ ہو کہ کڑی دوپہر میں آیا ہوں
میں تنہا کیسے یہ لمحے گزارتا‘ کچھ سوچ
تھا جس کی لو سے منور یہ خواہشوں کا مکاں
وہ اک چراغ بھی تو نے بجھا دیا‘ کچھ سوچ
یہ اجتناب‘ یہ خط فاصلے کا کیسے کھنچا
وہ جذبہ ختم بھلا کیسے ہو گیا‘ کچھ سوچ
تو جس کے پیار کو اپنی اَنا پہ تیاگ آیا
وہ رات تجھ سے زیادہ اُداس تھا‘ کچھ سوچ
بس اک نحیف سا جھونکا‘ بہارِ عہد سکوں!
ہرے درختوں کی شاخیں جھکا گیا‘ کچھ سوچ
تھا چاروں اور کڑی رنجشوں کی دھوپ کا دشت
میں کس کے پیار کی چھاؤں میں بیٹھتا‘ کچھ سوچ
وہ ماں کہ جس نے تلاطم سپرد مجھ کو کیا
میں اس کے خواب سے کیسے گلے ملا‘ کچھ سوچ
وہ باغ جس کی نمو میں رچا ہے میرا لہو
میں اپنے ہاتھوں سے کیسے اُجاڑتا‘ کچھ سوچ
نجانے کتنی ہواؤں کا زخم خوردہ ہے
وہ ایک پتا زمیں پر جو آگرا‘ کچھ سوچ
دروغ گوئی حقیقت کو ڈھانپ لیتی ہے
خلوص دل سے بیاں کر وہ واقعہ‘ کچھ سوچ
یہ کس زمین پہ رکھی تھی شہر کی بنیاد
دُکھوں کا شور فصیلوں میں رچ گیا‘ کچھ سوچ
وہ آدمی کہ دلاسہ دیا تھا تو نے جسے
فسردہ ریت پہ خوابوں کی سو گیا‘ کچھ سوچ
مرے مکان کے باہر بھی تیرگی تھی محیط
میں کیسے تجھ کو دریچے سے جھانکتا‘ کچھ سوچ
یہ اور بات کہ تھا پرکشش مگر احمد
وہ اجنبی تھا‘ اُسے کیسے روکتا‘ کچھ سوچ
No comments:
Post a Comment