مجھے جستجوءِ عشق ہے، تیری قربتوں کا سوال ہے
میں ہوں عشق سے نا آشنا، میرے دوستوں کا خیال ہے
میرا قلم ہے گواہ اس پر، میری شاعری بھی دلیل ہے
میری سانس ہے جو چل رہی، تیری چاہتوں کا کمال ہے
میری نگاہ سے تو دُور ہے ، دل و جاں سے پر تو قریب ہے
یہ فراق ہے نہ وصال ہے ، تیری شفقتوں کا یہ حال ہے
تجھے زندگی میں کیا ملا؟ صرف عشق ہی تو نہیں زندگی
تو نہ خوف کر اس بات کا ، تیرے دشمنوں کی یہ چال ہے
وہ نہ مل سکا تو کیا ہوا؟ کسی اور کا وہ نصیب تھا
یہ عشق کی نہیں ہار دوست، تیری محبتوں کا زوال ہے
میری منزل ہے دُور بہت پر، میری جستجو کو دوام ہے
کوئی رنج ہے نہ ملال ہے ، میری عاشقی بے مثال ہے
No comments:
Post a Comment