کوئی خواب تھا جو بکھر گیا کوئی درد تھا جو ٹھہر گیا
مگر اس کا کوئی بھی غم نہیں جو گزر گیا سو گزر گیا
یہ دل و نظر کا معاملہ بھی بہت عجیب و غریب ہے
کبھی ان لبوں پہ ہنسی رہی کبھی اشک آنکھ میں بھر گیا
میں زباں سے کچھ بھی نہ کہہ سکا وہ نظر سے کچھ نہ سمجھ سکا
نہ مرے ہی دل سے جھجک گئی نہ تو اس کے دل سے ہی ڈر گیا
کبھی تجھ سے بھی نہ سنبھل سکا کبھی مجھ سے بھی نہ سنبھل سکا
ترا آئنہ بھی بکھر گیا مرا آئنہ بھی بکھر گیا
تجھے ہوگا اس کا ملال کیا مجھے ہوگا اس کا خیال کیا
ترے حسن سے بھی کشش گئی مرے عشق سے بھی اثر گیا
وہ حسین چہروں کی بھیڑ تھی کہ نظر بھٹکتی ہی رہ گئی
تری جستجو کا نشہ تھا جو کسی موڑ پر وہ اتر گیا
یہ جو رنگ فکر و خیال ہے یہ تری نظر کا کمال ہے
ترا حسن تھا کوئی آئنہ جسے دیکھ کر میں سنور گیا
No comments:
Post a Comment