ہم اظہار چاہتے بھی ہیں اور چھپ بھی جاتے ہیں۔
ہم پذیرائی بھی چاہتے ہیں اور ڈرتے بھی ہیں۔
ہم لکھنا بھی چاہتے ہیں اور کسی کے پڑھ لینے سے خوف زدہ بھی ہیں۔
ہم اپنے دکھ، گلے شکوے، غموں کی کہانیاں سنانا بھی چاہتے ہیں اور خاموش بھی رہنا چاہتے ہیں۔
ہم اندر چیختی ہوئی چیخوں کا غبار نکالنا بھی چاہتے ہیں اور چپ بھی رہتے ہیں۔
ہم کامیاب بھی ہونا چاہتے ہیں لیکن محنت سے بھی بھاگتے ہیں۔
ہم پیسہ بھی کمانا چاہتے ہیں اور پھر کہنے سے شرماتے بھی ہیں۔
ہم چاہتے ہیں ہماری زندگی کی کتاب پڑھی
جائے اور لوگوں کے رد عمل سے گھبراتے بھی ہیں۔
ہم اپنے لیے عزت چاہتے بھی ہیں اور دوسرے کو دیتے وقت کم ظرفی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
ہم حقوق مانگتے بھی ہیں اور فرائض سے آنکھ چراتے بھی ہیں۔
ہم چاہتے ہیں ہمیں اچھی نگاہ، آبرو کا لبادہ اوڑھایا جائے اوردوسرے کو بے پردہ بھی کرتے ہیں۔
ہم اچھے ہیں اور قابل ترس بھی ہیں۔
ہم برے ہیں اور بیچارے بھی ہیں۔
ہم خوف کی لپیٹ میں ہیں اور تیس مار خان بھی ہیں۔
ہم کھرے کردار والے ہیں اور منافق بھی ہیں۔
ہم ڈرپوک ہیں اور بہادری کا طمغہ بھی چاہتے ہیں۔
ہم حیا کی باتیں کرتے ہیں اور ردا کی اہمیت سے انکاری بھی ہیں۔
ہم دو سے چار چہرے رکھتے ہیں اور ہم دوسرے پہ انگلی اٹھاتے ہیں۔
ہم اکیسویں صدی کے رہنے والے انسان ہیں۔
No comments:
Post a Comment