مجھے قضا سے ڈر نہیں لگتا
مجھے فنا سے ڈر نہیں لگتا
مجھے بے وفا سے ڈر نہیں لگتا
مجھے زمینی خدا سے ڈر نہیں لگتا
مگر میں کانپ جاتا ہوں
تلخ لہجوں سے
سوالیہ نظروں سے
طنزیہ جوابوں سے
اپنی ذات کے قائل نوابوں سے
لازم ہے کہ مال و زر سے پہچان بنے گی؟
لازم ہے چمکتے کپڑوں سے شان بڑھے گی؟
لازم ہے دمکتے جوتوں میں مخفی ہے عزت کا سامان؟
لازم ہے بناوٹی ساخت پہ پورا اتروں تو ہوں انسان؟
جس ڈگر چلے زمانہ اسی ڈگر میں چلوں؟
پچھلے چند دن سے مرا بے جان وجود یہ سب دھرا رہا ہے
دھرا رہا ہے اور میری سوچوں کو الجھا رہا ہے
الجھا رہا ہے کہ دیوانہ بنا رہا ہے
دیوانہ بنارہا ہے کہ گھمائے جارہا ہے
گھوم گھوم کے مجھ سے دور جائے جارہا ہے۔
عالم رنگ و بو در حقیقت ہے کیا ہے؟
کیا زمانے میں پنپنے کا یہی واحد راستہ ہے؟
اگر مادہ ہی ہے ضرورت تو ضرورت روح کیا ہے؟
بہتر ہے پہلے سے زندگی تو کیوں ضرورت مسیحا ہے؟
مجھے ڈر نہیں لگتا مگر میں کانپ جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment