اگر ہم اسی طرح
ایک دوسرے سے ملتے رہے
درخت لگے راستوں اور
کنکریٹ کے فٹ پاتھوں پر
گھنٹوں پیدل چلتے رہے
سفید بادلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے
اور اچانک امنڈ آنے والی بارشوں میں بھیگتے رہے
مضافاتی سڑکوں پر
دیر تک بے مقصد ڈرائیو کرتے رہے
چائے خانہ میں
کونے والی میز پر
رات گئے تک بیٹھ کر
دنیا جہان کی باتیں کرتے
اور خواب میں گم ہو جانے والی نظموں
دوبارہ کبھی نہ مل سکنے والے دوستوں
اور بے نام رشتوں، آدرشوں، محبتوں کو
یاد کر کے اداس ہوتے رہے
تو دیکھنا
ایک دن ہم نظم بن جائیں گے
No comments:
Post a Comment