میں آنکھیں موندے اپنے چہرے پر
اَس کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی ہوں
میں اَسکی آنکھوں میں اپنے لیے محبت محسوس کررہی ہوں
میں جانتی ہوں
وہ بند آنکھوں کے پیچھے چھپے میرے آنسوؤں کو دیکھ رہا ہے
لیکن ہاتھ بڑھا کر صاف کرنے سے قاصر ہے
میں آنکھیں کھولنا نہیں چاہتی
کہ کہیں وہ شرمندہ سا ہو کر نظریں نہ چرا لے
میں تا عمر اس لمحے کی گرفت میں قید رہنا چاہتی ہوں
کہ میں آنکھیں موندے لیٹی رہوں ,اور وہ نظروں کے حصار میں لیے مجھے تکتا رہے
لیکن لمحے کو آخر گزرنا ہے,ماضی بن جانا ہے
رات کے بعد دن کو آنا ہے
یہی فطرت ہے
اور فطرت بھلا کب چاہنے سے بدلی ہے
اور چاند بھلا کیسے مجھےتاعمر نظروں کے حصار میں لیے بیٹھ سکتا ہے
چاند کو بھی آخر سورج کی روشنی میں چھپ جانا ہے,گم ہو جانا ہے
No comments:
Post a Comment