میرے بچپن کی بات ہے جب ہمارے گھر کافی مہمان آئے تھے اور کولڈرنک کے لیے گلاس کم پڑ گئے تھے تو میں پڑوس والی آنٹی سے کچھ گلاس لینے گئی۔ آنٹی نے گلاس تھماتے ہوئے کہا یہ میرے جہیز کے گلاس ہیں احتیاط سے توڑنا نہیں۔
میں شام کو برتن دھو رہی تھی پڑوسن والی آنٹی کا جہیز والا گلاس میرے ہاتھوں میں ہی دم توڑ گیا۔😐 کوئی میرا ہو نا ہو غلطی ہمیشہ میری ہوتی ہے مانتی ہوں لیکن اس دن غلطی میری نہیں تھی اس آنٹی کے درجن بچے تھے اس لحاظ سے اندازہ لگایا جائے تو گلاس کی عمر کتنی بڑی ہوگی اس دن غلطی میری نہیں تھی گلاس ہی بزرگ تھا۔
گلاس کی لاش لیکر امی کے پاس گئی تو امی نے خوب سنائی۔ پھر امی نے دل پے پتھر رکھ کے ہمارے نئے گلاس سیٹ سے ایک گلاس نکال کے دیا کہ یہ ٹوٹے ہوئے گلاس کے بدلے دے دینا پڑوسن کو۔
میں گلاس لیکر پڑوسن والی آنٹی کے پاس گئی تو وہ الگ سے ہائے ہائے کرنے لگی اور ہمارا گلاس ہاتھ میں لیکر کہنے لگی اس کی کیا ضرورت تھی۔🤧
اب اگر مجھ سے کوئی برتن ٹوٹ بھی جائے تو میں لاش ٹھکانے لگا دیتی ہوں لیکن چند دن بعد امی کو اس برتن کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے اور شک کی نگاہ مجھ پے پڑتی ہے۔
آج بھی امی مجھ سے کانچ کی پیالی کا پوچھ رہی تھی جس کو دفنائے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔🙆♀️
No comments:
Post a Comment