کرب میں گُزرے لمحات کا حساب کون دے گا؟
میرے بے رونق چہرے کو تاب کون دے گا؟
یوں جو میری ناؤ ڈبو کے چلے ہو تم
بتلاؤ جینے کو سانسیں زیر ِآب کون دے گا؟
کر تو چلے ہو ہجر کی کوٹھڑی میں بند مجھ کو
باہر جو نکلنا چاہوں تو باب کون دے گا؟
اب تک جو ظلم ڈھائے ہیں تو نے مجھ پر
ذرا سوچو! روزِ محشر ان کا جاب کون دے گا؟
کنارہ جو کبھی کر گئیں تم اے دُرِّ ناسُفتہ
مجھے دریں صورت اپنی تشاب کون دے گا؟
ہوں تِشنہِ محبت، کرتا ہوں تشدد خود پر
لوگو! مجنوں کا پارسؔ کو خطاب کون دے گا؟
No comments:
Post a Comment