ایک وحشت سی ہم پہ طاری تھی
دوست داری جو خو ہماری تھی
کیا وہی دل ہے آج بھی جس میں
بے قراری ہی بے قراری تھی
اک طرف دل تھا زخم آلودہ
اک طرف عقل کی سواری تھی
کتنا ظالم تھا التفات اس کا
کتنی دلکش ستم شعاری تھی
اُن کے آنسو بھی آپشنل نکلے
اور محبت بھی اختیاری تھی
جب ثمر بار تھیں مری شاخیں
مستقل مجھ پہ سنگ باری تھی
میں نے مانا کہ میری بھول تھی وہ
ہاں مگر بھول کتنی پیاری تھی
کون تھے وجہِ افتخار نہ پوچھ
کِن سے منسوب میری خواری تھی
مجھ کو راغب ملے تھے ایسے دوست
دشمنوں سے بھی جن کی یاری تھی
No comments:
Post a Comment