جب مجھ سے باتیں کرتی تھی
وہ لڑکی شوخ سی چخچل
سی
ڈرتی تھی پوچھا کرتی
تھی
تم میرے ہو نا بس میرے
ہو.......
میں نے کہا · اے
پگلی!
تو نازک پھولوں کلیوں سی
اور سندر حوروں پریوں سی
میں تو شخص ہوں بکھرا بکھرا سا
حالات کے ہاتھوں بگڑا سا
بھلا تجھ کو کیا دے پاؤں گا
وہ کہنے لگی تیری آنکھوں کی مجھے لالی اچھی لگتی ہے
اس لالی کو میں اپنی بھی پلکوں میں بسانا چاہتی ہوں
تم کچھ بھی کہو
بس بات یہ ہے
تمہیں اپنا بننا چاہتی ہوں
اب مجھ سے بس اتنا کہہ دو
تم میرے ہو نا؟ بس میرے!
میں سن کر چپ سی سادھ گیا
وہ سمجھی شاید مان گیا
میں گم تھا سوچوں وہموں میں
کچھ درد پرانے یاد آےء
محسوس عجب سا ہونے لگا
بس پھر کیا تھا میں رونے لگا
اپنی نرم گزار ہتھلی کو
میرے ہاتھ پر رکھ کر وہ بولی
تیرے سب غموں اور دکھوں کو
خوشیوں کے رنگ میں بدلوں گی
چاھوں گی میں تجھ کو اتنا
کہ تجھ کو پاگل کر دوں گی
بس تم مجھ سے اتنا کہہ دو
تم میرے ہو نا؟ بس میرے ہو..!
اب ساتھ نہیں ہے وہ میرے
جو مجھ کو پاگل کرتی تھی
جو میرے سارے جزبوں کو
بس اپنا《حاصل》 کہتی تھی
جو میرے درد کہ آنگن میں
خوشیوں کو شامل کرتی تھی
جب میں اس سے یوں کہتا ہوں
میں تیرا ہو بس تیرا ہو....
میں تیرا ہو ہاں بس تیرا ہو.........
No comments:
Post a Comment