ہمیشہ خواب بن کر
خواہشوں کی آنکھ میں
تم گم ہی رہتے ہو
لرزتے سائے کی صورت
ہمیشہ دسترس سے دور
رہتے ہو
.
کبھی تم سامنے آؤ
تمہیں وہ خوف دکھلاؤں
کہ جو خوابوں کے اکثر ٹوٹ جانے پر
کسی کی مردہ آنکھوں سے ٹپکتا ہے
.
تمہیں سمجھاؤں
دیواروں سے باتیں کیسے ہوتی ہیں
کوئی بھی بات جو ہوتی نہیں
وہ کس قدر تکلیف دیتی ہے
.
بدن کے چاک پر خواہش کی مٹی سے کھلونے کیسے بنتے ہیں
.
جدائی اور تنہائی کے ڈر سے
بدن یوں ڈھیر ہوتا ہے
کہ جیسے بارشوں میں کوئی کچا گھر پگھلتا ہے
.
سنو
! جب بھی اداسی قد سے بڑھ جائے
تو پستی کا بہت احساس ہوتا ہے
.
مرا وجدان تم کو دیکھ کر ہی وجد میں آتا ہے
تو میں شعر کہتی ہوں
یا خود کو روند دیتی ہوں
.
کبھی تم سامنے آؤ
کہ میری چند غزلیں اور نظمیں نامکمل ہیں
.
تمہیں کھونے کے ڈر سے
اب تمہیں پانے کی خواہش بھی نہیں دل میں
.
مگر
پھر بھی کبھی تم سامنے آؤ
No comments:
Post a Comment