یوں توں دل نگر میں داخل ہونے پر روشنیاں، خوشیاں، قلقاریاں، مُسکراہٹیں اور
مسرتیں ہی نظر آتی ہیں۔ عمارتوں کا ایک وسیع جہان آباد ہے۔ ہر طرف روشنی پھیلی ہے۔ چراغاں ہی چراغاں، ہر سُو میلے کا سا سماں۔ دن رات میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ ہر وقت انجوائے منٹ کا وقت لگتا ہے۔ پہلی مرتبہ آنے والوں کو جنت کا شبہ بھی ہو جاتا ہے۔ بار بار آنے والے البتہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جگہ تو اسی دنیا میں کہیں ہے، بس ذرا ماحول پکنک سپاٹ والا بنا رہتا ہے۔ ہر وقت ہلا گُلا جاری رہتا ہے۔ ابھی یہاں کیک کٹا تھا، اس کی مٹھاس اور تالیاں ہوا میں سے تحلیل بھی نہیں ہوئیں تو ایک اور ایونٹ چلا آتا ہے۔ ادھر دیکھیں تو اس دفتر نما عمارت میں کوئی نہ کوئی پارٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ ذرا پرے اُدھر دیکھیں ۔۔ارے یہ تو کوئی گھر ہے اور یہاں بھی خوشیوں کے ڈیرے دور سے نظر آ رہے ہیں ۔ فضا میں کچھ دعائیں موجود ہیں۔ نیک روحوں کو ادھر اُدھر رحمتوں کی موجودگی بھی محسوس ہو جاتی ہے۔
ان عمارتوں، خوشیوں، مسرتوں اور قلقاریوں سے پرے ذرا مزید بائیں کو مڑیں تو روشنیاں دھیرے دھیرے دھیمی پڑنے لگتی ہیں۔ دیکھنے والا سجاوٹیں دیکھتا دیکھتا اتنی دور چلا آتا ہے کہ اسے دھیرے دھیرے دھیمی پڑتی روشنی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب احساس ہوتا ہے تو واپس مڑنے میں دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بستی کے بائیں طرف موجود بڑے احاطے کا پھاٹک یکدم ہی سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے ابھی ابھی عدم سے وجود میں آیا ہو۔ بڑا سا سیاہ پھاٹک، جس پر ایک بار نظر ڈالنے والا دوسری نظر تو ضرور ڈالتا ہے۔ اور اکثر یہ دوسری نظر اچنبھے کی ہوتی ہے۔ حیرت بھری نظر۔۔۔۔ قریباً ہر کوئی خوشیوں بھری بستی کی طرف نگاہ ڈالتا ہے اور پھر بڑے پھاٹک کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے۔ پھر کوئی بڑبڑاتا ہے، کوئی بدبداتا ہے اور کوئی صرف سوچ کر ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن آواز ہو یا نہ ہو، تاثرات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے کیا کہا ہو گا' ارے ایسی جنت نظیر بستی میں اس بھوت محل کا کیا کام؟'۔ اور پھر یہ سوچ کر ہی وہ واپس نہیں مڑ جاتا۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ آنے والے کے قدم سیاہ پھاٹک کی سمت اٹھنے لگتے ہیں۔ جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے، ایسے ہی آنے والا حیرت، تجسس اور جستجو کے کچے دھاگے سے بندھا کھنچا چلا آتا ہے۔ ہولے ہولے سے پھاٹک تک پہنچتا ہے۔ اپنی آنکھیں نیم ملگجے اندھیرے سے مانوس کرتا ہے۔ پہلے اُچک کر اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اندر کا دھندلا اندھیرا اس کی جستجو کو مہمیز دیتا ہے۔ اور پھاٹک تک آنے والا بالآخر اندر قدم دھر ہی دیتا ہے۔
نیم ملگجے سے اندھیرے میں تھوڑی سی اور سیاہی ڈال دیں تو ایسی روشنی بڑے پھاٹک کے احاطے میں پھیلی ہوتی ہے۔ آنکھیں اس سے مانوس ہونے میں چند لمحے لے لیتی ہیں۔ اور جب آنے والے کی نگاہیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں تو اکثر کو چھوٹا موٹا جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ جھٹکا کیوں نہ لگے سامنے ہی تو تین چار ڈھیریاں ہیں۔ ایک آدھ گڑھا بھی موجود ہے جیسے ابھی ابھی گورکن نے زمین کا سینہ چاق کیا ہو۔ آنے والے کو یو ں لگتا ہے جیسے وہ قبرستان میں گھُس آیا ہے۔ کئی ایک تو ڈر کے مارے یہیں سے بھاگ جاتے ہیں۔ کچھ بہادر مقدس آیات کا ورد کر کے نادیدہ بلاؤں سے تحفظ کا حصار باندھتے ہیں۔ کچھ ڈھیٹ روحیں اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور قدم آگے بڑھا لیتی ہیں کہ چلو یہاں تک آ گئے تو بقیہ کام بھی نپٹاتے ہی چلیں۔ کچھ تو دور سے ہی ڈھیریوں کو سلام کر کے دیگر معائنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کچھ قریب جا کر بغور جائزہ لیتے ہیں۔ ذرا قریب سے دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ ڈھیریاں واقعی قبریں ہی ہیں۔ کوئی پرانی اور پکی ہے، کوئی ذرا نئی اور کچی ہے، کوئی چند برس پرانی ہے اور کوئی چند ماہ پرانی ہے۔ اکثر کا تبصرہ یہی ہوتا ہے کہ ارمانوں کا قبرستان لگتا ہے۔ کبھی کوئی زیادہ غور کے موڈ میں ہو تو تازہ کھدی قبر پر بھی نگاہ ڈال کر اندازہ لگانے کی کوشش کر ڈالتا ہے کہ یہاں بھلا کون سا ارمان دفن ہو گا۔۔۔ کچھ تو یہیں سے واپس مُڑ جاتے ہیں۔ اور کچھ بڑے احاطے کو میوزیم سمجھ کر باقاعدہ سیر پر اُتر آتے ہیں۔
قبروں سے پرے دائیں جانب ایک ادھوری سی عمارت ہے۔ دیواریں کھڑی ہیں، ایک طرف ریت کی ڈھیری بھی لگی ہے۔ چھت موجود نہیں۔ 'شاید کوئی ادھورا منصوبہ ہو گا'، اکثر کا یہی تبصرہ ہوتا ہے۔ قبروں کے بائیں جانب زمین پر کھدائی کے نشان نظر آتے ہیں۔ جیسے کوئی عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ بنا تھا لیکن ٹھیکیدار بھاگ گیا، یا مالک کا خیال بدل گیا۔ بڑے احاطے کی زمین تو آدھے ادھورے ارمانوں کا قبرستان ہے، اس کی فضا میں بھی سوگ جیسے ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دور، کافی دور بستی کے روشنیوں بھرے محلے میں، جہاں ہوا بھی چلتی ہے تو ناچ کر، اِٹھلا کر چلتی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ہوا چلتی نہیں، بس ٹھہری رہتی ہے۔ جیسے سرما میں دھند چلتی نہیں، بس ٹھہری رہتی ہے۔ لیکن دھند میں اور اس سوگ بھری فضا میں فرق درجہ حرارت کا ہے۔ دھند سردی کا تاثر دیتی ہے، یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ بس فضا میں کچھ ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سردی کی بجائے ہلکی سی گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کچھ فاصلے پر بھٹی جلنے سے حدت اردگرد کو نیم گرم سا کر دیتی ہے۔ ایسے ہی بڑے احاطے کی فضا نیم حزن و ملال، پشیمانی اور اداسی کے ملے جلے سے احساسات پیدا کرتے ہوئے نیم گرم سی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ آنے والوں کو تو ماں کی گود جیسا احساس ہونے لگتا ہے۔ کئی ایک تو ایک جانب ہو کر ادھوری عمارت کے ڈھانچے میں کوئی جگہ تلاش کر کے بیٹھ بھی جاتے ہیں اور کئی گھنٹے بیٹھے ہی رہتے ہیں۔ جانے کس سوگ میں بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید بڑے احاطے کے ادھورے ارمانوں کا سوگ مناتے ہیں۔ کون جانے۔۔۔۔
دل نگر میں بڑے احاطے کی حیثیت وہی ہے جیسے پوش علاقے کے پچھواڑے میں ایک کچی بستی کی ہوتی ہے۔ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل لیکن بستی کا ایک لازمی جزو۔ یہ کچی بستی نہ ہو تو سامنے والا حصہ زیادہ خوبصورت کیسے معلوم ہو۔ امتیاز ختم ہو جائے تو شناخت ختم ہو جائے۔ بڑا احاطہ دل نگر کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سُنا ہے کہ ہر دل نگر میں ایک بڑا احاطہ موجود ہوتا ہے۔ ساری روشنیوں، خوشیوں، قلقاریوں، مُسکراہٹوں اور مسرتوں سے کچھ ہی دور، ذرا ایک طرف کر کے ایک بڑا احاطہ ہوتا ہے۔ جس میں کچھ ادھورے ارمان دفن ہوتے ہیں، کچھ ادھوری خواہشیں فضا میں ٹھہری ہوتی ہیں، کچھ ادھورے منصوبے ادھر اُدھر بکھرے ہوتے ہیں۔ سُنا ہے کہ دل نگر کے مکین اکثر بڑے احاطے کا پھاٹک تالا لگا کر بند ہی رکھتے ہیں تاکہ باہر سے آنے والوں کی نظر نہ پڑے اور انہیں کوئی ایسا ویسا تاثر نہ ملے۔ لیکن کبھی کبھی بڑے احاطے کے کواڑ کھُلے بھی رہ جاتے ہیں۔ اور تب کوئی ڈھیٹ قسم کا نڈر مہمان بلا دھڑک بڑے احاطے میں جا گھُستا ہے۔ اور اسے چار لفظ لکھنے بھی آتے ہوں تو وہ اس تحریر کی طرح مشاہدہ قلم بند بھی کر ڈالتا ہے۔ لیکن اکثر دل نگر کے مکین باہر سے آنے والوں کو اپنی خوشیاں ہی دکھاتے ہیں۔ ہنسی ہنسوڑ پن میں ہی اتنی مہمان نوازی کر دیتے ہیں کہ آنے والے کو اور کوئی تمنا ہی نہیں رہتی۔ لیکن کبھی کبھی شاید یہ خوشیاں دکھاوا لگتی ہیں۔۔۔کوئی زیادہ ہی چالاک قسم کا مہمان اپنی مدد آپ کے تحت سیر کرنے نکل پڑتا ہے۔۔۔۔اور پھر ایسی کوئی تحریر وجود میں آ جاتی ہے۔۔۔سنا ہے کبھی کبھی دل نگر میں داخل ہونے پر ایک ہی عمارت سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔بڑے احاطے سے۔۔۔اور باقی سب کچھ اس کے اندر ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن آدھا ادھورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment