شام غم مجھ کو ایسی اداسی نہ دے
کہ میرے حوصلے کی فصیلوں کے اندر کسی یاد کا کوئی پنچھی گرے
اور دل کی جو سنسان ویران سی ایک بستی ھے اس میں
دفن ھونے والے ھر اک درد کی آنکھ پھر سے کھلے
شام غم مجھ کو ایسی اداسی نہ دے
کہ میرے ھونٹوں پر کھلنے والی جو پھیکی سی مسکان ھے
دیکھ کر اس کو محفل میں حاسد میرے
اپنی مرضی کا عنوان دیتے پھیریں
لاکھ قصے جنیں داستانیں بنیں
شام غم مجھ کو ایسی اداسی نہ دے
کہ بھرے شہر میں دیکھ کر میرا چہرہ سبھی یہ کہیں
تم خزاں رت کی دلکش سی تصویر ھو
کون رانجھا ھے وہ جس کی تم ھیر ھو
تم یقینا کسی، بہت منجھے ھوئے نامور سے مصنف کی تحریر ھو
شام غم مجھ کو ایسی اداسی نہ دے
کہ مجھے دیکھ کر سالوں صدیوں تلک
ان ھواؤں کے آنچل بھی نم ھی رھیں
بعد مدت کے جب بھی کسی عشق کی داستاں رقم ھو
درد کا اس میں پہلا حوالہ میری جان ھم ھی رھیں
شام غم مجھ کو......ایسی اداسی نہ دے
No comments:
Post a Comment