آج کل طلاق کے اعدادوشمار اس قدر بڑھ گے ہیں جو پچھلے کئی سالوں میں اس طرح نہیں تھے.
"میرا گھر کہاں ہے؟ "
سمیرا کا دن پھر سسرال والوں سے لعنت ملامت سنتے گزرا تھا. اس کی ساس نندیں اٹھتے بیٹھتے اس کو جتاتیں. بہو یہ تمھارا اور تمہارے ابا کا گھر نہیں ہے. جہاں تم جو چاہو گئی کرو گی.
آج تو معمولی سی بات پر سب نے ایسا بتنگڑ بنایا کہ اس کے ہزار بار معذرت کے باوجود اس کی ساس نندوں کے مزاج درست نہ ہوئے. جیسے جیسے عقیل کے گھر آنے کا وقت ہورہا تھا سمیرا کا دل بیٹھا جارہا تھا ابھی عقیل نے گھر میں قدم ہی رکھا تھا. سمیرا کی ساس نندوں نے ایسا طوفان برپا کیا کہ عقیل اس پر چیل کی طرح جھپٹ پڑا. اس نے سمیرا کی بات سننے کی بھی زحمت نہیں کی. اس کے بال پکڑ کر اس پر تاڑ تاڑ تھپڑوں کی بارش کردی. آج اس کا غضب ہی علیحدہ تھا .جب وہ مار مار کر تھک گیا تو اس نے کہا :
میں نے تمہیں طلاق دی.
میں نے تمہیں طلاق دی.
میں نے تمہیں طلاق دی.
سمیرا لپک کر اس کے پیروں میں گری مگر اس کی دنیا لٹ چکی تھی.
اس کی نند نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو دروازے سے باہر نکال دیا. یوں جس گھر میں وہ چھ ماه پہلے شادیانوں کے ساتھ عروسی لباس میں ملبوس، زیورات سے لدی ہوئی آئی تھی.آج اس گھر سے اس کو خالی ہاتھ، طلاق کا داغ دے کر؛ دھکے مار کر نکال دیا گیا تھا. اس کے کان میں اپنی ماں کی آواز گونجی :
"بیٹا ! اپنے گھر جا کر سارے اپنے چاه پورے کرنا. کنواری لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھر ایسے چاو پورے نہیں
کرسکتیں ."
وه اپنے زخمی بدن اور روح کو گھسیٹتی کیسے اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی وه اس سے بالکل ناواقف تھی. جب اس کو ہوش آیا تو اس کے ماں باپ، بہن بھائی ایسے رو رہے تھے جیسے کوئی مر گیا ہو.اس نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کو بتائے کہ وہ ابھی زندہ ہے.
اگلے دن سے اس کے گھر افسوس کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا. وه بظاہر افسوس کرنے آتے مگر اس کے زخم زدہ جسم اور چہرے کو دیکھ کر عورتیں معنی خیز انداز میں مسکراتیں. اس کو اپنی بدکردار ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑا .کوئی اس کی بات ماننے پر آمادہ نہ تھا کہ ایک سالن میں نمک تیز ہونے پر اس کی زندگی میں یہ زہر گھول دیا گیا ہے. کوئی اس بات کو سننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ عقیل کی ماں بہنوں نے اسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلاق دلوا کر گھر سے نکالا ہے.اس کی ماں کو اس سے ہمدردی تھی مگر اس کے ابا کو تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ اس کو جانتا ہی نہ ہو.بھائیوں اور بھابیوں کے تیور خراب تھے. بہنیں اس سے ہمدردی کرتیں تو ان کو بھی جھاڑ پڑتی. ایسا لگتا تھا جیسے اس کو کوڑھ ہوگیا ہو.اس کا بابل کا گھر پرایا ہوگیا تھا. ہر نظر میں اس کے لیے شک تھا. آج ناعمہ کے سسرال والے آئے اور بغیر کسی وجہ کے انگوٹھی واپس کرکے رشتہ توڑ دیا.
آج زندگی میں پہلی بار اماں نے اس کو مارا اور بار بار کہا؛
تو مر ہی کیوں نہ گئی اپنے گھر میں"
سمیرا ایک دم سے چلائی :
اماں! میرا گھر اس دنیا میں کہاں ہے؟
یہ گھر میرے ابا اور بھائیوں کا ہے وہ گھر عقیل اور اس کی ماں بہنوں کا تھا. میرا گھر کونسا ہے اماں؟
اماں کے ہاتھ رک گئے. باہر سے آتے ابا اور بھائی بھی شرمندگی سے بغلیں جھانک رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment