اس دن دوست کے نکاح کی تقریب میں جانے کے لیے میں تیار کھڑی تھی تو اُس سے سامنا ہوا
سفید اور پیازی رنگ کا یہ جوڑا میں نے اُس کی فرمائش پر پہنا تھا۔
میک اپ کے نام پر زرا سا بلشر، مسکارا اور ہلکے رنگ کا لِپ شیڈ، کمر کو چُھوتے بال کسی بھی قید سے آزاد تھے اور یہ ہربار کی طرح میری مکمل تیاری تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی میں اپنا جائزہ لینے لگی تو خود پر ٹوٹ کے پیار آیا۔ پتہ نہیں آج کل میں واقعی حسین ہو رہی تھی یا صرف مجھے ہی ایسا محسوس ہو رہا تھا۔ شاید محبت کا اثر تھا یا پھر شاید محبوب کی نظر کا۔
دروازے پہ ہلکی سی دستک کے بعد وہ اب میرے سامنے کھڑا تھا۔ اُس کی ہمیشہ جھکی رہنے والی نظریں آج اُٹھی ہوئیں تھیں اور میرا ہمیشہ سے اُٹھا رہنے والا سر آج جھکا ہوا تھا۔
سو تبدیلی آ نہیں رہی تھی تبدیلی آگئی تھی۔
بس اتنی سی تیاری؟ سوال تو آگیا جواب نہیں آ سکا۔ خواہش تھی کے چند تعریفی بول سُنوں۔ مگر وہ کہہ رہا تھا،
لڑکیاں تو اتنا میک اپ کرتی ہیں کے پلاسٹک کی گڑیا لگنے لگتی ہیں مگر آپ تو ابھی بھی موم کی گڑیا ہی لگ رہی ہیں۔
پتہ نہیں تعریف تھی یا برائی مگر مجھے اچھا نہیں لگا۔ دل جیسے اُداسی کی دلدل میں دھنسا جارہاتھا کہ پھر یکدم کمرے میں گلاب کی خوشبو اِٹھلانے لگی۔ وہ میرے لیے گلاب کے کنگن لایا تھا۔
وہ گلاب کے کنگن اس نے اپنے ہاتھوں سے مجھے پہنائے اور میرے کان کے پاس اپنے لب وا کیے کہنے لگا
آپ اچھی لگ رہی ہیں اپنی تمام تر سادگی سمیت، معصومیت کی جھلک دِکھاتیں نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی ہیں۔
اُس کی سانس کی حِدت میرے کان کی لو کو سُرخ کر گئی۔ پھر اُس نے میری جُھمکی کو چھیڑا یا پتہ نہیں وہ جُھمکی میری غیر ہوتی حالت کا مزاق اُڑاتے خود ہلنے لگی تھی۔ کمرے میں اتنی دیر تک خاموشی رہی کہ مجھے گمان ہوا وہ جا چکا ہے۔ بوجھل ہوتی نظروں کو بہ مشکل اُٹھانے میں کامیاب ہوئی تو اُسے اپنے سامنے مُجَسِم پایا وہ آنکھ بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا یا شاید کوئی ورد کر رہا تھا۔ اُس کی بند آنکھیں
اُس کے ہلِتے ہونٹ، اک سیکنڈ، دو سیکنڈ، تین سیکنڈ، چار، پانچ، چھ، نہ جانے کتنے سیکنڈوں بعد اُس نے آنکھ کھولی اور مجھ پر پھونکنے لگا
میں ہل نہیں سکی
سانس نہیں لے سکی
پَلک نہیں جھپک سکی
جیسے وہ مجھ پر کوئی منتر پھونک رہا تھا
.وہ مجھے قید کر رہاتھا۔
نہیں، شاید وہ میرے گرد حفاظتی حصار باندھ رہاتھا۔ وہ مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کر کے چلا گیا۔
کمرے کی ہر بے جان شے اُس کی محبت کے گیت گانے لگی۔
اور میری آنکھیں اُس کی اتنی پرواہ پر آنسو بہا رہی تھیں مگر پھر یاد کا کوئی دُھندلا سا منظر میری آنکھ رُلا گیا تھا۔
میں بھی تو کسی کے گِرد یونہی حصار باندھا کرتی تھی۔ اُسے تصور میں لا کر میں بھی تو یہی کِیا کرتی تھی،
جو آج وہ میرے ساتھ کر گیا تھا۔
میں نے کب سوچا تھا کوئی میرے ساتھ بھی یوں کرے گا
میں نے کب چاہاتھا کوئی میری پرواہ کرے۔ مگر
آہ! محبتیں یوں بھی لوٹ کر آیا کرتی ہیں
یوں،
بلکل اچانک
دبے پاؤں،
میرے وہ سچے جذبے یونہی بے کار نہیں گئے۔
میرا رب مجھے بدترین سے گزار کے بہترین تک لے ہی آیا
وہ اور میں ....میں اور وہ .... کسی تیسرے کا کہیں اب سایہ بھی نہیں تھا
No comments:
Post a Comment