عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
ـــــ خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے
جو نام بھولنے کا تھا اُس ایک نام کو
ــــــ گلی گلی پُکارتے رہے
جو کھیل جیتنے کا تھا وہ کھیل ہارتے رہے
عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
-
کسی سے بھی تو قرضِ آبرو ادا نہیں ہوا
لہولہان ساعتوں کا فیصلہ نہیں ہوا
برس گزرگئے ہیں کوئی معجزہ نہیں ہوا
وہ جل بجھا کہ آگ جس کے شعلہ نفس میں تھی
وہ تیر کھا گیا کمان جس کی دسترس میں تھی
سپاہِ مہر کا فصیل شب کو انتظار ہے
کب آئے گا وہ شخص جس کا سب کو انتظار ہے
ہم اہلِ انتظار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
No comments:
Post a Comment