میں تو اپنے ہونٹوں پہ لیے مسکان کھڑا تھا
پھر عکس کیوں آئینے میں پریشان کھڑا تھا؟
ذندگی دنیا کے رواجوں میں گزر رہی تھی
خدا تب یاد آیا جب سامنے طوفان کھڑا تھا
تم نے بھی ہنستی ہوئی تصویر پہ اعتبار کر لیا؟
نہ سمجھا کہ اس میں بکھرا ہوا انسان کھڑا تھا
جس کانچ کے دل کو رکھ کر تم نے پتھر کے خواب دیکھے
اس کے ٹوٹ جانے پر کیوں اب حیران کھڑا تھا؟
اپنی بےوفائی کو مجبوریوں کا رنگ دے کر
کتنی ہمت سے وہ خوبرو بےایمان کھڑا تھا
میرے اشعار کو فقط خیالات جانا اس نے
سب جان کر وہ کیسے انجان کھڑا تھا
ندی کے اس پار بھی کسی کی خاموشی چیختی تھی
شاید اس پار بھی مجھ سا کوئی نعمان کھڑا تھا
No comments:
Post a Comment