یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
۔
اِک یاد ہے جو نقش__________ ہے لوحِ دماغ پر
اِک زخم ہے جو دل کی حِفاظت میں اب بھی ہے
۔
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کِسی طرح
یہ کاروانِ شوق ، مُسافت میں اب بھی ہے
۔
ترکِ تعلقات کو اِک عمر ہو چکی
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب بھی ہے
۔
سب دوست مصلحت کی دُکانوں پہ بِک گئے
دشمن تو پُرخلوص عداوت میں اب بھی ہے
۔
آثارِ حشر سارے نمُودار ہو چکے
کہتے ہیں لوگ دیر قیامت میں اب بھی ہے
۔
مجبُوریوں نے برف بنا دی اَنا، مگر
شعلہ سا ایک اپنی طبیعت میں اب بھی ہے
۔
جس نے کیا تھا جرم وہ کب کا بَری ہوا
جو بےقصُور ہے، وہ عدالت میں اب بھی ہے
۔
برسوں ہوئے جو زخمِ شناسائی سے ملا
وہ درد میری، اُس کی شراکت میں اب بھی ہے
۔
مل جائے وہ کہیں تو اُسے کہنا اے ہوا
باقی ترا غموں کی حراست میں اب بھی ہے
No comments:
Post a Comment