اس نے کہا: کبھی انسان سانس لیتا ہے، اور زندوں میں شمار ہوتا ہے، اور کبھی کبھی انسان کی سانس بھی چل رہی ہوتی ہے، لیکن وہ مر چکا ہوتا ہے۔ جانتے ہو کیوں؟؟؟
میں نے کہا: "نہیں"
اس نے کہا: کیوں کے اس کا اندر اس وقت مر چکا ہوتا ہے، وہ اندر سے چکنا چور ہو چکا ہوتا ہے، اس کے اندر ایک طوفان بپا ہوتا ہے، جو اس کے سوا کسی کو نظر نہیں آ رہا ہوتا۔
میں نے کہا: ہاں! یہ اندر سے ٹوٹنے کا عمل ہی مایوسی کی انتہا ہوتی ہے، جہاں اس کو کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا، اپنا رب بھی نہیں۔
اس نے کہا: یہ مایوسی نہیں، یہ خواہش کا ختم ہو جانا ہے،۔۔
میں نے کہا: ٹوٹ جانا مایوسی ہی ہوتی ہے، ہاں اندر سے مضبوط ہو جانا، ضرور خواہشات کا ختم ہو جانا ہوتا ہے۔
اس نے کہا: تو پھر کبھی انسان کے اندر کی توڑ پھوڑ بھی تو انسان کو خواہشات سے دور کر دیتی ہیں۔
میں نے کہا: نہیں، جب تک یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے، انسان مایوس سے مایوس تر ہوتا جاتا ہے، وہ خواہشات کا ختم ہونا نہیں، بلکہ اکتا جانا کہلاتا ہے، اور جب یہ ٹوٹ پھوٹ ختم ہو جاتی ہے، تو پھر کچھ کرنے کا عزم جاری ہوتا ہے، کچھ ایسا کرنے کا جس کو زوال نہ ہو، اور وہ رب کریم کی ذات ہوتی ہے، جس کو پانے کی خواہش جنم لیتی ہے، تو پھر آپ کا اندر مضبوط ہونے لگتا ہے، پھر آپ کی ساری خواہشات ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے، کیونکہ آپ دنیا والوں کی حقیقت جان چکے ہوتے ہو، شاید آپ کوئی ٹھوکر کھا چکے ہوتے ہو، اور وہ خواہشات کا ختم ہونا ہی، دنیا سے بغاوت کا اعلان ہوتا ہے، اور اپنے نفس کو پہچاننے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔۔ جہاں بندہ اپنے کمال کے ساتھ، پورے جلال کے ساتھ کامل بن کر چیخ رہا ہوتا ہے، اور اس کی چیخ سنی جا رہی ہوتی ہے۔۔
وہ پکارتا ہے۔ اللہ۔۔۔۔ اندر سے آواز آتی ہے، ہاں میرے بندے۔ بول
No comments:
Post a Comment