ابھی تو ساتھ رہنا تھا
تمہیں تو میری آنکھوں کو بہت سے خواب دینے تھے
تمہیں تو میری اِس بے رنگ پھیکی عُمر میں کتنے سُہانے رنگ بھرنے تھے
تمہیں تو میری ازلوں کی اُداسی دور کرنی تھی
تمہیں تو اپنی پوروں سے مِرا ہر اشک چُننا تھا
تمہیں تو میرے سر کو گود میں رکھ کر مِرا ہر درد سُننا تھا
تمہیں تو میری بِکھری ذات سے اِک عشق تھا شاید
تمہیں تو بھول جانے کا تصور مار دیتا تھا
مگر یہ کس طرح سب کچھ اچانک بھول بیٹھے ہو
تو کیا وہ جھوٹ تھا سارا
وہ سب وعدے وہ سب دعوے محض باتوں کی حد تک تھے
کہو کیا جھوٹ کہتے تھے
زمانہ کچھ کرے لیکن ہمارے ہاتھ میں اِک دوسرے کا ہاتھ رہنا ہے
ہمیں تاعُمر یوُنہی ساتھ رہنا ہے
ابھی تو عُمر باقی تھی
ابھی تو خواہشوں کی ٹہنیوں پر پُھول کِھلنے تھے
ابھی تو ہجر کے سب چاک سِلنے تھے
ابھی تو وقت کے مُنہ زور گھوڑے کی لگاموں میں ہمارا ہاتھ رہنا تھا
ابھی تو ساتھ رہنا تھا
No comments:
Post a Comment