سنو! حضرت نوحؑ نے نو سو ساٹھ سال لوگوں کو اللہ کے دین کی تبلیغ کی تھی پھر آخر نسلوں کی کج روی سہتے سہتے انہوں نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اب وہ تھک چکے ہیں اس لیے اب وہ اپنا عذاب جس کا اس نے وعدہ کر رکھا تھا، بھیج دے۔۔ پھر اتنی بارش ہوئی تھی کہ پوری سر زمین زیر آب آ گئی تھی ۔۔ سنو! آج وہ بھی محبت کی انتہا کے الاو میں جلتا جلتا کندن ہو کر منت کرتے ہوئے مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ بتا تجھے اور کتنا چاہوں کہ تو مکمل میری ہو جائے ۔۔ وہ رو رہا ہے ۔۔ بچوں کی طرح زار و قطار اور اب خواہش ابھرنے لگی پے کہ اس پر تمام چاہتیں لٹا کر محبت بن کر اتنا برسوں کہ اسکی ہستی عمر ابدی تک زیر آب آ جائے ۔۔ اور پھر اسی سمندر میں ڈوب کر اسکا گوہر نایاب بن جاوں ۔۔ اب بتاو یہ محبت ہے؟ جنون ہے؟ عشق ہے؟ دیوانگی ہے؟ بے بسی ہے یا کیا ہے؟ اس سے کیا ہے جو یہ نیا جنم دیتے ہوئے میرا آدم ثانی بنتا جا رہا ہے
No comments:
Post a Comment