مجھے لگا تھا
قیاس ہے یہ
فقط ہے وہم و گمان میرا
بدلتے موسم کے ساتھ جیسے بدل رہا ہو دھیان تیرا
کہ کچھ دنوں سے یہ لگ رہا ہے
کہ تیری نیندوں میں , رت جگوں میں
حسین خوابوں کے سلسلوں میں
تری دلیلوں میں , منطقوں میں
وہ تیری چاہت کے ضابطوں میں
قدیم الفت کے فلسفوں میں
طویل سوچوں کے دائروں میں
میں کچھ دنوں سے کہیں نہیں ہوں
سو دلربائی میں خاص یکتا ۔۔۔!!
بدن کے پردوں کو چاک کرتا
اگرچہ لہجہ وہی ہے تیرا
مگر ندارد وہ سرخوشی ہے
جو میرے من کی اجاڑ گلیوں میں سرمدی سے دئیے جلاتی
فلک سے تاروں کو کھینچ لاتی
اگرچہ لہجہ وہی ہے تیرا
مگر ندارد وہ تازگی ہے
جو دشتِ جاں میں بنفشی رنگوں کے کچھ انوکھے سے گل کھلاتی چلی ہی جاتی
مرے بدن کی تمام شاخوں پہ گنگناتا
یہ نیلگوں سا عجیب دکھ ہے
میں کچھ دنوں سے اداسیوں کی دبیز تہہ میں پڑی سرابی سی آہٹوں سے الجھ رہی ہوں
میں کچھ دنوں سے دیار_الفت کے طاقچوں میں فروزاں خوابوں کے نیلے صدمے کی
آہ و زاری سے ڈر رہی ہوں
میں سرد لہجے کے موسموں کا عذاب سہتی ٹھٹھر رہی ہوں
عجیب رت ہے
حریمِ ہستی میں زردیاں سی کھلا رہی ہے
عجیب رت ہے
کہ آگہی کے نگار خانے میں بدگمانی سجا رہی ہے
عجیب رت ہے
کہ اب کے بادِ سموم جیسے برنگِ موجِ قہر گئی ہے
عجیب چپ سی ٹھہر گئی ہے
تجھے خبر ہے
جو کوئی لہجہ بدل رہا ہو
کسی کے دل سے نکل رہا ہو
تو ایسا لگتا ہے کوئی سنگدل کسی بھی دکھتی ہوئی سی رگ کو پکڑ کے جیسے مسل رہا ہو
کچل رہا ہو
عجیب دکھ ہے۔
No comments:
Post a Comment