آہستہ چل اے زندگی
کئی قرض چکانا باقی ہے۔۔۔
کچھ درد مٹانا باقی ہے
کچھ فرض نبھانا باقی ہے۔۔۔
رفتار میں تیرے چلنے سے
کچھ روٹھ گئے، کچھ چھوٹ گئے۔۔۔
روٹھوں کو منانا باقی ہے
روتوں کو ہنسانا باقی ہے۔۔۔
کچھ حسرتیں ابھی ادھوری ہیں
کچھ کام بھی اور ضروری ہے۔۔۔
خواہش جو گھٹ گئی اس دل میں
اس کو دفنانا باقی ہے۔۔۔
کچھ رشتے بن کر ٹوٹ گئے
کچھ جڑتے جڑتے چھوٹ گئے۔۔۔
ان ٹوٹے چھوٹے رشتوں
کے زخموں کو مٹانا باقی ہے۔۔۔
تو آگے چل میں آتا ہوں
کیا چھوڑ تجھے جی پاؤں گا۔۔۔
ان سانسوں پر حق ہے جن کا
انکو سمجھانا باقی ہے۔۔۔
.
.
No comments:
Post a Comment