کسی این جی او نے ایک سماجی تجربہ کیا ، دو نوعمر بچوں کو لیا. ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا. شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا. دراصل ہم بحیثیت قوم انجانے میں بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں. ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں اور مشٹنڈے بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئ
مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں. ہمارے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے. اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو اپنی جایز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا
گھر میں ایک مرتبان رکھیں. بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں. مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں. اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں. صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے. یاد رکھئے، بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ بڑھتی ہے. خیرات دیں، منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ، اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی. باقی مرضی آپ کی
No comments:
Post a Comment