مکافاتِ عمل
اُن دنوں تخلیق کے مراحل سے گزرنا میرے لیے کسی عذاب کا سا مرحلہ تھا عام دنوں میں تو وہ مجھے جوتے کی نوک پہ رکھتا ہی تھا مگر ان دنوں تو اسنے جوتے کی نوک ہی مجھ پر رکھ دی تھی
وہ ہاتھ اُٹھتا تو میں سوچتی تھی آج اس سے مار ہر گز نہیں کھاؤنگی مگر صرف سوچ کے رہ جاتی تھی چہرے پہ پڑنے والے نیلوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا اور چہرے سمیت روح بھی نیلی پڑتی گئی -
کمر پہ بڑے بیلٹ کے نشان اُسکے ظلم پر نہیں میری اپنی بذدلی پر دُھائی دینے لگے
ایکدن سوچا اُسے کہونگی صرف گالیوں کی مار ماردیا کرے یوں ہاتھ کی مار برداشت کرنے ک اب سکت نہیں رہی مگر اُسکی لال آنکھوں کا خوف مجھ پہ اتنا طاری تھا کہ میں چپ بہ مہر رہی - اور نتیجتاََ اپنی اولاد کو دنیا میں لانے سے پہلے ہی کھو بیٹھی - اولا کھونا پھر چھوٹا دکھ تھا مگر پھر دوبارہ کبھی ماں نہ بننے کا غم مجھے لے ڈوبا - اب میں کچھ نہیں سوچتی تھی خودبہ خود اسکے ہاتھوں میں بیلٹ تھما دیا کرتی تھی کہ مارو مجھے جتنا مار سکتے ہو مارو کم از کم اتنا ہی مارو کہ میں اپنی کبھی نہ پیدا ہونے والی اولاد کے پاس جا پہنچوں - مگر نہ جانے کیوں اُسے کیا ہوگیا تھا کہ وہ اب مجھے مارتا نہیں تھا میرا خیال رکھتا تھا اکٹر صبح آفس جانے سے پہلے مجھے ناشتہ دے جاتا تھا مگر میں پہلے ک طرح اسکی طرف پھر کبھی مائل نہیں ہو پائی
وہ مجھے جب مارتا تھا مجھے تب اس سے محبت تھی اور اب جب وہ مجھے سے محبت کرنے لگا تھا تو میں اُسے مارنے لگی تھی
چپ کی مار
پھر کچھ عرصہ بعد اسنے دوسری شادی کرلی میری اجازت سے وہ دو پھول سی بیٹیوں کا باپ بن گیا تو دھیرے دھیرے وہ مجھ سے پھر محبت کرنا بھول گیا
مگر آج کئی سالوں بعد وہ میرے کمرے کی دہلیز پر مجھ سے معافی مانگنے آیا تھا
آج اسکی اپنی لختِ جگر چہرے پر نیل اور ماتھے پر طلاخ کا داغ لے کر آئی تھی تو اسے میرا نیلا چہرا بھی یاد آہی گیا مگر میں اسکی معافی سن ہی نہ پائی خاموشی سے اُسکے آگے وہ بیلٹ لے آئی جسکے نشان آج بھی میرے جسم و روح پر باقی تھے مگر نہ جانے کیوں وہ مجھے گلے لگائے بس پھوٹ پھوٹ کے روتا رہا ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں جس مرد کو رُلانے کی عادت ہو وہ بھلا خود کیسے رو سکتا ہے
No comments:
Post a Comment