پتا ہے میری جنگ ختم ہوگئ ہے اب مجھکو حاصل اور لاحاصل سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ۔ اب چاہے بہار آئے یا خزاں کا موسم ہو میری ذات کھنڈر بن چکی ہے ۔ کبھی کھنڈر کو دیکھنا تو تم کو معلوم ہو جائے گا جب تک اس میں لوگ رہتے رہیں نا اور اس کی دیکھ بھال کرتے رہیں تو وہ کھنڈر نہیں بنتا لیکن جیسے ہی اس میں بسنے والے کوچ کر جائیں نا تو وہ کچھ عرصے میں کھنڈر بن جاتا ہے ۔ ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہوتی ہے اگر کوئ اس میں بسنا چاہے نا تو اسکو ویرانی سے خوف آئے گا ۔ اسی طرح مجھ میں بسنے والی خواہشات ، آرزوئیں اور تمنائیں دم توڑ چکیں ہیں ۔ اور میری ذات کھنڈر بن چکی ہے ۔ اب مجھکو اکیلے پن سے و ہشت نہیں ہوتی اب ہجوم کے جانے غم نہیں ہوتا ۔ اب یادیں مجھکو ستاتی نہیں ہیں اب محبت کے نغمے کانوں میں گونجتے نہیں ہیں ، اب شہنائ کی آواز سے دل مچلتا نہیں ہے ۔ اب آنسو پلکوں پہ نہیں آتے ۔اب تمام گلے شکوے مٹی کی دھول کی طرح اڑ گئے ہیں۔ بس مجھ کو و ہشت ہوتی ہےتو جھوٹے رشتوں سے جو ذات کو کب کھنڈر کر جاتے ہیں پتہ نہیں تم سن رہے ہو نا ؟ بس اب کسی اور کی ذات کو کھنڈر مت کرنا .
سنو صاحب تم نے محبت کو صرف کہانیوں میں پڑھا ہوگا ہم نے اس میں زندگیاں اجڑتے دیکھی ہیں ۔
No comments:
Post a Comment