ہم کو تم کو پھیر سمے کا ،لے آئی حیات کہاں ہے۔۔۔۔
ہم بھی ہی ہیں ،تم بھی وہی ہو، لیکن اب وہ بات کہاں۔۔۔۔
کبھی کبھی ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے لرز جاتے ہیں۔۔۔۔ کبھی آپ نے اپنے سکول، کالج ، یونیورسٹی میں ڈگری کے دو تین سال بعد جا کہ دیکھا ہوگا کہ ہر چیز ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہوتی ہے۔۔۔ ہم اور ہمارے ساتھی انہی راستوں پر کل تک گھوم رہے تھے، ہنس رہے تھے ، اک دوجے کے ساتھ ایسے مگن تھے کہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا یہ دو چار سال کا سفر ختم ہو جائے گا۔۔۔ آج بھی وہی رستے ہیں، وہی کوریڈور ہیں، وہی کمرے اور بینچ ہیں لیکن ہم نہیں ہیں ہمارے ساتھی نہیں ہیں۔۔۔۔ جس جگہ بھاگ بھاگ کر جاتے رہے وہیں اکیلے بیٹھ کر دل گھبرا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔
ایسے ہی دنیا ہے۔۔۔۔
کل ہمارے بڑے تھے، آج ہم ہیں کل کوئی اور ہوگا۔۔۔۔دنیا یوں ہی رہے گی، نظام ایسے ہی چلے گا، لیکن آپکی کمی محسوس نہیں کی جائے گی۔۔۔۔ ہم اگر ایسے ہی چند سال بعد اپنے وقت کے بعد یہاں آ جائیں تو شاید اک پل بھی نہ رہ پائیں۔۔۔ زندگی اپنے وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہی گزاری جا سکتی ہے۔۔۔ گزرے پل اور لوگ لوٹ نہیں سکتے نہ انکی کمی پوری ہو سکتی ہے ورنہ جانے والوں کو کون روتا۔۔۔۔
وقت کی، لوگوں کی ، ان لمحات کی قدرت کا تحفہ سمجھ کر قدر کر لینا ہی سب بڑی شکر گزاری ہے۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment