خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
یوں کہ تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن
ہل جائیں گے اک بار تو عرش کے در و بام
یہ خاک نشین لوگ جو بولیں گے کسی دن
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں "بتائیں گے کسی دن"
اے جان! تیری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ میرے درد کی اتریں گے کسی دن
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اک نظم تیرے واسطے لکھیں گے کسی دن
امجد ہے یہی اب کہ کفن باندھ کہ سر پر
اس شہرِ ستم گر میں جائیں گے کسی دن
(امجد اسلام امجد)
No comments:
Post a Comment