ان بچوں کی آنکھوں میں یہ چمک ہمیشہ سے تھی یا تم اپنی آنکھوں کے کچھ ستارے ان کو مستعار دے گئے ہو، یہ درخت کیا پہلے بھی ایسا ہی سایہ دار تھا جیسے تمہارے یہاں سے گزرنے کے بعد لگ رہا ہے۔۔؟
کیا یہ پھول یہاں پہلے بھی تھے یا تمہارے قدموں کے نشان امر ہوگئے ہیں۔۔۔؟
تم جا کر بھی یہیں کہیں ہو اس ہوا کی باس میں بسے، برستی بارش میں، اس دھنک کے رنگوں میں، ہوا میں بہت اوپر اڑتی پتنگوں میں، دیوار پر بل کھاتی ان بیلوں کے سبز پتوں پر شبنم کی چمکتی بوندوں میں، تم ہو میرے اندر اور باہر میری روح کے کسی گوشے میں پناہ گزیں
نجانے کہاں جا بسے ہو اپنا بسیرا چھوڑ کر کیوں تم آزاد رہنا چاہتے ہو لوٹ آؤ کہ اب انتظار کی گھڑیاں بھی تھک گئیں لوٹ آؤ کے اب خزاں جانے کے بہانے تلاش کر رہی ہے ۔۔۔
تم سمیت سب کچھ واپس چاہیے مجھے ویسے ہی جیسے کبھی میرا تھا سب۔
No comments:
Post a Comment