تم کو معلوم ہے محض یہ ہجر و وصال کا دکھ
ہے کس کا دردِ سر یہ ماہ و سال کا دکھ
گھٹا کے پردے ميں چھُپا سوچے ہے ماہتاب
کوئی بانٹ لے شاید وہ اس کے خیال کا دکھ
ہے شمس بھی عاجز ان بادلوں سے
جھانکے ہے بارہا،سنانے کو اپنے احوال کا دکھ
یہ ابر گرج برس کے سنائیں قصہِ غم
ہے کس کے ذمے یہ ان کے زوال کا دکھ
آہ نہ مل پائیں روز و شب سے
کہاں گیا خورشید کا دکھ،ہلال کا دکھ
تیرے تخیّل کی ڈور ذرا بل کھا جائے قلب
نظر آ جائے گا تجھے ان صاحبِ حال کا دکھ
No comments:
Post a Comment