رات کا آخری پہر تھا..رات بھی پہلی نہیں نا جانے اس رات کی طرح کتنی راتیں جاگ کر گزاری تھیں اس نے..ایسی ہی تھی وہ خود الجھتی تھی.. خود ہی اس ڈور کو سلجھا لیا کرتی تھی..یہ پہلی بار تھا.. ایک سرے کو پکڑتی تھی تو دوسرا ہاتھ سے نکل جاتا تھا.. سوچوں کا ایک لا محدود سمندر.. کہانیوں میں ہوتی ہیں ایسی لڑکیاں..جو آج بھی محبت کو نفس کا بہکاوا سمجھ کر صحیح،غلط..جائز،ناجائز ..گناہ اور جزا کے بیچ ایک دلدل میں پھنسی رہتی ہیں.. مگر وہ تو حقیقی زندگی کا ایک اصل کردار تھی..جس کو یہی خوف کتنی راتیں بے چین رکھتا تھا کہ وجود کی محبت میں ایک قدم آگے بڑھے گی تو ذات کی محبت کے سمندر سے جانے کتنا دور چلی جائے گی..اور اسے یہ خوف جائز لگتا تھا..نانی ہی تو تھیں جن سے وہ بلا جھجک کچھ بھی پوچھ لیتی تھی..انکے بعد سے اس نے دل میں آنا والی ہر الجھن صرف اپنی ڈارئری میں راز کی طرح محفوظ کر لی تھی.. اور اب ایک انسان کا خیال جس کے خواہش بننے کا خوف اسے راز بنا کر دل میں دفن کرنے سے بھی ڈراتا تھا..اسے وہ ڈائری میں کیسے اتارتی.. ! ذات کی محبت کے حصار سے نکل جانے کاخوف اسے وجود کی محبت کی دلدل میں اترنے سے روک لیتا تھا..اس زمانے میں جہاں ہر کوئ محبت کو فرض سمجھتا تھا،اس کا فلسفہ الگ تھا.."محبت تو پارساوءں کا کام ہے..ہم گناہگار تو روز ناجانے کتنوں کا دل توڑتے ہیں.." نانی کی یہ بات ذہن پہ مہمان بن کر بیٹھ گئ تھی..جواب چاہتی تھی وہ..دعا کرتی تھی کہ وجود کی محبت کے بہکاوے میں نہ آ جائے.. ایک رات جواب مل گیا اسے.. کسی الہام کی طرح شاید... *محبت تو ذات اور وجود کی قید سے بالاتر ایک جذبہ ہے..جس پہ کوئ پہرہ نہیں دے سکتا..وجود سے محبت کرنا گناہ نہیں..بس اس دلدل میں اتنا نہ دھنسنا کہ ذات کی محبت کا سمندر ساحل پر دے مارے۔
No comments:
Post a Comment