میں جنگ میں جیتا گیا سامان نہیں ہوں
خستہ حالی پر اپنی مگر حیران نہیں ہوں
۔
مجھے تو کوئی ڈھونگ بھی رچنا نہیں آتا
روتے ہوئے کہتا ہوں کہ پریشان نہیں ہوں
۔
لہجے پر اپنے بہت تنقید سنی ہے
لوگوں کی نگاہ میں اچھا انسان نہیں ہوں
۔
ظاہر ہے فرشتوں سے تعلق نہیں میرا
مسجد میں مولوی کا بیان نہیں ہوں
۔
راتوں میں اکثر لکھنے کی عادت ہے
اور کہتے ہو ادب کا قدردان نہیں ہوں ؟
۔
لگتا ہے چُپ ہوں مگر چُپ نہیں ہوں
رنگوں سے ان کے ذرا انجان نہیں ہوں
۔
خدشہ کوئی ، خطرے کا امکان نہیں ہوں
شاعر ہوں میری جان! عام انسان نہیں ہوں...
No comments:
Post a Comment