ایسا نہیں تھا کہ وہ کترانے لگی تھی
بس دور ہو گٸ تھی خود سے جڑے لوگوں سے
جانے کیا ضد تھی کہ ایک جنون سا سوار
ہوا تھا اس پر
پھر ایک دن وہ ہجوم سے کنارہ کر گٸ مگر
حیرت کی بات یہ گزری کہ اسکی
غیر موجودگی کسی پر گراں نہیں گزری
مگر یہ خوش آٸیند بات تھی
وہ چاہتی بھی یہی تھی کہ وہ کسی کو یاد نہ رہے
کوٸ دل اسکی یاد میں نہ تڑپے
کوٸ آنکھ اسکے غم میں نہ لرزے
کوٸ اشک اسکے لیے نہ گرے
پتا اکثر ایسی کیفیت سے گزر ہوتا ہے کہ اپنے
ارگرد موجود ہر شے بےمعنی سی لگنے لگتی ہے
ہم سوچنے لگتے ہیں ہر بات میں وجہ ڈھونڈنے
لگتے ہیں اور پھر اپنی ہی لاابالی سوچوں میں کہیں
غرق ہو کر ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اور ماضی کب حال ہوا کرتا ہے ؟؟
وقت سبھی چیزوں کو بخوبی اپنے ساتھ لے کر ہی چلتا ہے اب جو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ
وقت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو وہ بیچارے
تو بےسبب ہی روند دیے جاتے ہیں ۔
اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔وقت اسے ماضی میں چھوڑ کر خود آگے کی طرف
گامزن ہوا تھا۔
اور وہ ماضی میں کہیں کھو گٸ تھی
اور جو کھو جاتے ہیں وہ کہاں حاصل ہوتے ہیں پھر۔۔
ماضی تو سب کچھ نگل لیتا ہے
No comments:
Post a Comment