اک نگاہ اٹھاۓ اور مستی برپا ہو عالم میں
اسکی نظروں میں چھلکتےجام کےمیخانے ہیں بڑے دلکش
وہ جو اسکی قربت میں بسیراں کیے ہوۓ ہیں
ان خوش نصیبوں کے وہ ٹھکانے ہیں بڑے دلکش
خیال ہی خیال میں وہ جب میرے نزدیک آتا ہے
خیالوں کی آغوش میں گزرے وہ زمانے ہیں بڑے دلکش
جو اسے دیکھتے ہیں میں انہیں دیکھ کر بھی راضی ہوں
اسکو دیکھنے کے لیے یہ بہانے ہیں بڑے دلکش
درد کے زلزلوں نے ہلا دیا میرے بدن کی درودیوار کو
درد جو نذر کرے وہ نظرانے ہیں بڑے دلکش
وہ لفظ،وہ کہانیاں جن کو لبوں تک رسائ نہ ملی
اسکی نظروں میں رقم وہ فسانے ہیں بڑے دلکش
جو بھی ہے!ٹوٹنے کا مزہ الگ ہے عاشی
درد میں شدتوں کے پیمانے ہیں بڑے دلکش
No comments:
Post a Comment